ایرانی بادشاہ کی بیگم کو شاہ بانو کہا جاتا تھا‘ اگر بادشاہ کی وفات کے وقت ولی عہد نابالغ ہوتا تو شاہ بانو کو اس کی بلوغت تک حکمرانی کا حق حاصل تھا۔ مغلیہ دور میں ملکہ نور جہاں اور ممتاز محل دونوں ایرانی نژاد تھیں اور امورِ مملکت میں ان کا کردار واضح تھا۔ پاکستان میں بیگم ناہید اسکندر مرزا اور بیگم نصرت بھٹو‘ دونوں کے والدین ایرانی تھے۔ایرانی معاشرے میں ایک دلچسپ اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کا ذکر یہاں ضروری ہے اور وہ ہے ”زن سالاری‘‘۔ اس کا مطلب ہے خواتین کی قیادت۔ ایران میں یہ روایت موجود رہی ہے کہ بادشاہ کے حرم میں موجود خواتین اہم امورِ سلطنت کو نہ صرف زیرِ بحث لاتی تھیں بلکہ بادشاہ کو گورننس کے بارے میں مشورے بھی دیتی تھیں۔ آج کے ایران میں شرح تعلیم 87فیصد ہے اور بیشتر آبادی شہروں میں رہتی ہے۔
زن‘ زندگی اور آزادی کا نعرہ آج پورے ایران میں گونج رہا ہے۔ ایرانی خواتین زندگی اور آزادی کا حق مانگ رہی ہیں۔ کیا مادام گوگوش اور فروغ فرخزاد کے وطن میں انہیں حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ وہ تو صدیوں سے صنفی برابری کی عادی ہیں۔ زن سالاری ان کے نزدیک قطعاً معیوب نہیں۔ خواتین کے مظاہروں نے حکومت کو پریشان ضرور کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خواتین کی منظم مزاحمت سے موجودہ نظام گر جائے گا۔ موجودہ حکومت انقلاب کا ہر قیمت پر دفاع کرے گی۔ مگر ایرانی عورت نے نظام کو جھٹکا ضرور لگایا ہے۔